اُردو ادب کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی 152ویں برسی آج منائی جا رہی ہے-
مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو بھارت کے شہر آگرہ میں پیدا ہوئے مرزا غالب کو لوگ پیار سے مرزا نوشہ کہا کرتے تھے-
مرزا غالب نے شاعری کا آغاز لڑکپن میں کیا تھا- 1812 میں غالب دلی چلے گئے اور پھر وہیں قیام پزیر رہے۔ شاعری ہو یا نثر، انشا پردازی ہو یا خطوط نویسی، غالب نے ہر شے میں اپنے منفرد انداز سے اپنی شاعری سے بہت ہی خوبصورت رنگ بکھیرے- اُن کی شاعری کا حسنِ بیان اپنی جگہ مسلم ہے، مگر اُن کا اصل کمال تلخ حقائق کا ادراک اور انسانی نفسیات کی پرکھ ہے اور اسی کو غالب نے نہایت آسان الفاظ میں ڈھالا مرزا غالب کی شاعری میں انسانی معاملات، نفسیات، فلسفہ، کائناتی اسلوب اور دیگر موضوعات ملتے ہیں۔ وہ کائنات کی وسعت کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ
سبزہ و گل کہاں سے آئے
ابر کیا چیز ہے ، ہوا کیا ہے
غالب کی شاعری اور نثر نے اردو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے اور انہوں نے فارسی اسلوب کے علاوہ سنجیدہ اور سلیس زبان میں بھی نہایت گہرے اشعار پیش کیے۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب کئی اشعار سے بھرا ہوا ہے۔ غالب زندگی بھر تنگ دستی اور غربت کے شکار رہے۔
مرزا غالب پر کئی ڈاکیومینٹریز، فلمیں اور ڈرامے بھی بنتے رہے۔ 1850 میں مغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر نے انہیں مختلف خطابات سے نوازا۔ 15 فروری 1869 کو مرزا غالب اس دنیا سے چل بسے.